21 ستمبر، 2017

اردو کی کثیر الاستعمال بحریں

بحروں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے لیکن آج تک کی اردو شاعری کا تقریبا نوے فیصد سے زیادہ حصہ کل تیس پینتیس بحروں میں ہے. اس لیے اگر کوئی ان کثیر الاستعمال بحروں کو سمجھ لے تو اسے اشعار کہنے اور تقطیع کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی. بلکہ ان تیس پینتیس بحروں میں سے بھی اگر بارہ پندرہ بحروں پر ہی عبور حاصل کر لیا جائے تو ہر طرح کے مضامین اشعار میں باندھ سکتے ہیں.
اس لیے جو حضرات صرف اشعار کہنے کے لیے عروض پڑھ رہے ہیں ان کے لیے ان کثیر الاستعمال بحروں میں سے بارہ پندرہ بحروں پر عبور بھی کافی ہے.
عنقریب ایک پوسٹ میں اردو کی تمام کثیر الاستعمال بحریں مثالی اشعار کے ساتھ پیش کروں گا. ان میں سے ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق بارہ پندرہ بحروں کا انتخاب کر سکتا ہے.

17 جولائی، 2016

زحافات

جدید عروض کے اسباق

 ساتواں سبق (حصۂ سوم)

جدید عروض کے زحافات

٣. حذف: جس رکن کے آخر میں دو ہجائے بلند ہوں اس کے آخری ہجائے بلند کو گرا دینا. جیسے فعلن سے فع, فعولن سے فعل, مفعولن سے فعلن, فعلاتن سے فعلت, مفاعیلن سے فعولن, فاعلاتن سے فاعلن.
یہ زحاف عروض و ضرب کے ساتھ خاص ہے. جس رکن پر یہ زحاف لگے اسے محذوف کہتے ہیں.

٤. ترفیل: فاعلن, مفاعلن, مفتعلن, مستفعلن, متفاعلن اور فعَل کے بعد ایک ہجائے بلند کا بڑھا دینا جیسے فاعلن سے فاعلاتن, مفاعلن سے مفاعلاتن, مفتعلن سے مفتعلاتن, مستفعلن سے مستفعلاتن, متفاعلن سے متفاعلاتن, فعل سے فعولن کر دینا.

یہ زحاف عروض و ضرب کے ساتھ خاص ہے اور نہایت قلیل الاستعمال ہے. زحاف لگے رکن کو مرفل کہا جاتا ہے.

جدید عروض میں یہی چار زحاف ہیں.

17 جون، 2016

رباعی کے اوزان

جدید عروض کے اسباق
آٹھواں سبق
رباعی کی تعریف اور اوزان
رباعی کی تعریف: مخصوص اوزان میں کہے گئے ایسے چار مصرعوں کو رباعی کہا جاتا ہے جن میں کوئی ایک مضمون مکمل کیا گیا ہو. پہلے, دوسرے اور چوتھے مصرع کا مقفی ہونا ضروری ہے اور تیسرے میں اختیار ہے.
رباعی کے اوزان مخصوص ہیں ان اوزان کے علاوہ دیگر اوزان میں کہے گئے چار مصرعوں کو رباعی نہیں کہا جائے بلکہ قطعہ کہا جائے گا.
رباعی کے اوزان: رباعی کے چوبیس اوزان ہیں.جنھیں روایتی عروض میں بحر مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحر ہزج) پر مختلف زحافات لگا کر حاصل کیا جاتا ہے اور عروض کی دیگر تمام کتابوں میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے لیکن چونکہ جدید عروض میں وہ سارے زحافات ہیں ہی نہیں اس لیے ہم وہ آسان طریقہ اختیار کریں گے جو جدید عروض کے مطابق ہو. یعنی ایسا طریقہ جس سے جدید عروض کے زحافات ہی سے چوبیس اوزان حاصل ہو جائیں. اور یہ عروض پر نہایت تحقیقی کتاب "عروض سب کے لیے" کے مصنف جناب کمال احمد صدیقی کی ایجاد ہے.
کمال احمد صدیقی وہ محقق اور مظلوم عروضی ہیں جن کی درج ذیل تحقیقات فیس بکی عروضی ایسے انداز میں پیش کر چکے ہیں گویا کہ یہ انہیں کی تحقیقات ہوں:
١. محقق طوسی کی "معیار الاشعار" میں مذکور ہشت حرفی رکن مفاعلاتن کی بنیاد پر دائرہ طوسیہ اور اس دائرے سے مزید دو بحروں کا استخراج اور بحر مفاعلاتن کو بحر جمیل سے موسوم کرنا کمال احمد صدیقی صاحب کا ہی کارنامہ ہے.
٢. اسی طرح ابراہیم ذوق کے "دیوان ذوق" کا ایک قصیدہ جو کہ بحر مفتعلاتن مثمن میں ہے اس کو بنیاد بنا کر دائرہ ابراہیمیہ اور اس سے مزید دو بحروں کا استخراج بھی کمال احمد صدیقی کے سر ہے.
٣. رباعی کے چوبیس اوزان کی تسھیل یعنی دو بنیادی اوزان کی تعیین اور پھر انہی دو اوزان پر زحافات لگا کر چوبیس اوزان کی تخریج بھی موصوف کا کارنامہ ہے.
اللہ سارقین کو ہدایت دے. بہرحال رباعی کے دو بنیادی اوزان درج ذیل ہیں:
١. مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
٢. مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
یہ دونوں اوزان بھی اصلا ایک ہی وزن ہیں کیونکہ مفاعلن اور مفاعیل کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال جائز ہے. لیکن سمجھنے میں آسانی کے لیے دونوں کو الگ الگ شمار کیا گیا ہے.
اب جدید عروض کے زحافات زیادت اور تسکین اوسط کو ان دو اوزان کے ہر ہر رکن پر جاری کرتے جائیں تو مزید بائیس اوزان حاصل ہو جائیں گے. ملاحظہ فرمائیں:
١-٢. مفعول مفاعلن مفاعیل فعل/فعول
٣-٤. مفعول مفاعیل مفاعیل فعل/فعول
٥-٦. مفعول مفاعلن مفاعیلن فع/فاع
٧-٨. مفعول مفاعیل مفاعیلن فع/فاع
٩-١٠. مفعول مفاعیلن مفعول فعل/فعول
١١-١٢. مفعول مفاعیلن مفعولن فع/فاع
١٣-١٤. مفعولن فاعلن مفاعیل فعل/فعول
١٥-١٦. مفعولن مفعول مفاعیل فعل/فعول
١٧-١٨. مفعولن فاعلن مفاعیلن فع/فاع
١٩-٢٠. مفعولن مفعول مفاعیلن فع/فاع
٢١-٢٢. مفعولن مفعولن مفعول فعل/فعول
٢٣-٢٤. مفعولن مفعولن مفعولن فع/فاع
رباعی کے یہی چوبیس اوزان ہیں ان چوبیس میں سے کسی بھی ایک ہی وزن پر یا دو, تین, چار مختلف اوزان پر چار مصرع اس طرح کہے جائیں کہ مضمون مکمل ہو جائے تو اس کلام کو رباعی کہا جائے گا.

4 مئی، 2016

زحافات

جدید عروض کے اسباق
ساتواں سبق (حصۂ اول)
جدید عروض کے زحافات
زحاف: عروضی ارکان میں جو تغیر و تبدل کیا جاتا ہے اسے زحاف کہتے ہیں. جیسے رکن فاعلن کو فاعلان, مفتعلن کو مفعولن, مفاعلن کو مفاعلاتن کر دینا.
ہر رکن زحاف لگنے سے پہلے تک سالم رکن کہلاتا ہے اور زحاف لگا کر جو صورت حاصل کی جاتی ہے اسے اس رکن کی مزاحف شکل کہتے ہیں اور اسی طرح جس بحر میں کسی رکن پر زحاف کا عمل جاری ہو اس بحر کو بھی مزاحف بحر کہتے ہیں. جیسے فاعلن سالم رکن ہے, فاعلان اس کی مزاحف شکل ہے اور فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان مزاحف بحر ہے
روایتی عروض میں زحافات کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ جدید عروض میں گنتی کے چند زحافات ہیں.
١. زیادت: جس رکن کے آخر میں ہجائے بلند ہو اس رکن کے آخری ہجائے بلند کے درمیان ایک الف ساکن بڑھا دینا. جیسے فعْلن سے فعْلان, فعِلن سے فعِلان, فعولن سے فعولان, فاعلن سے فاعلان, مفعولن سے مفعولان, فعلاتن سے فعلاتان, مفاعلن سے مفاعلان, مفتعلن سے مفتعلان, مفاعیلن سے مفاعیلان, مستفعلن سے مستفعلان, فاعلاتن سے فاعلاتان, متفاعلن سے متفاعلان, مفاعلتن سے مفاعلتان, فع سے فاع, فعَل سے فعول.
یہ زحاف بحر کے ہر رکن پر نہیں جاری کیا جاتا بلکہ صرف عروض و ضرب اور بحر کے ہر مصرع کے درمیانی دو حشووں میں سے پہلے حشو پر لگایا جاتا ہے. لہذا مربع بحر کے صرف عروض و ضرب پر کیونکہ مربع بحر میں حشو ہوتا ہی نہیں, مسدس کے بھی صرف عروض و ضرب پر کیونکہ مسدس میں صرف ایک ہی حشو ہوتا ہے, مثمن بحر میں عروض وضرب کے علاوہ حشو اول پر بھی جاری کیا جاتا ہے. مثالیں:
مربع:
فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلان
مسدس:
فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلن فاعلان
مثمن:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلان فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلان فاعلن فاعلان
اس زحاف میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر پہلے مصرع کے کسی رکن پر لگے تو دوسرے مصرع میں بھی لگے جسے
فعولن فعولن
فعولن فعولان
یا
فعولن فعولان فعولن فعولن
فعولن فعولن فعولن فعولان
وغیرہ بھی درست ہیں

جدید عروض کے اسباق
ساتواں سبق (حصۂ دوم)
جدید عروض کے زحافات
٢. تسکینِ اوسط: بحر میں کسی بھی جگہ تین متحرک جمع ہو جائیں, چاہے ایک رکن کے ہوں یا دو ارکان کے, ان تینوں میں سے درمیانے متحرک کو ساکن کر دینا. جیسے فَعِلَاتن میں ف ع ل تینوں متحرک ایک ساتھ ہیں لہذا اگر درمیانے متحرک (ع) کو ساکن کر دیں تو فِعْلَاتن ہو جائے گا, اسی طرح
فَعِلُن سے فِعْلُن
فَعِلَات سے فِعْلَات
مُفْتَعِلُن سے مُفْتَعْلُن
مُتَفَاعلن سے مُتْفَاعلن
مفاعَلَتُن سے مفاعَلْتُن
ہو جائیں گے.
یہ تو مثالیں تھیں ایک رکن میں تین متوالی حرکات کی اب دو ارکان کے آگے پیچھے آنے سے جو تین متوالی حرکات پیدا ہو جاتی ہیں ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں: فاعُ فَعُولن میں ع ف ع تینوں متحرک ایک ساتھ جمع ہو رہے ہیں لہذا اگر درمیانے متحرک کو ساکن کر دیں تو فاعَفْ عُولن ہو جائے گا. اسی طرح
فعولُ فَعَلْ سے فعولُفْ عَل
مفعولُ مَفَاعیل سے مفعولُمْ فَاعیل
مفعولُ مَفَاعلن سے مفعولُمْ فَاعلن
ہو جائیں گے.
اوپر مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ تسکین اوسط کے بعد جو اوزان حاصل ہوئے وہ کچھ غیر مانوس سے ہیں اس لیے انہیں مانوس و متعارف ہم وزن اوزان سے بدل دیا جاتا ہے لہذا:
فِعْلاتن کو مفعولن سے
فعْلات کو مفعول سے
مفتعْلن کو مفعولن سے
متْفاعلن کو مستفعلن سے
مفاعلْتن کو مفاعیلن سے
فاعف عولن کو فعلن فعلن سے
فعولف عل کو فعولن فع سے
مفعولم فاعیل کو مفعولن مفعول سے
مفعولم فاعلن کو مفعولن فاعلن سے
بدل دیتے ہیں.
یہ ایک عام زحاف ہے یعنی زیادت کی طرح درمیانے دو میں سے پہلے حشو اور عروض و ضرب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ صدر و ابتداء, عروض و ضرب اور ہر حشو میں آ سکتا ہے. جیسے بحر:
مصرع اول: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
تسکین اوسط کے بعد:
مصرع دوم: مفعول مفاعیلن مفعولن فعلن
ہو گئی.
اگرچہ دونوں مصرعوں میں کافی فرق ہے لیکن دونوں ہم وزن شمار ہوں گے.
ایک ہی شعر میں زیادت و تسکین اوسط کی مثال: ع
اک ہی کن کر دے گی ویراں
یہ چمن یہ خرابے یہ شہر یہ دشت
مصرع اول: فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
مصرع دوم: فعِلن فعِلن فعِلن فعِلان

29 مارچ، 2016

بحور کی اقسام اور اشعار کی تقطیع کا طریقہ

جدید عروض کے اسباق
ساتواں سبق
بحور کی اقسام اور اشعار کی تقطیع کا طریقہ
بحر کی تعریف دوسرے سبق میں بیان کی گئی تھی, دوبارہ دہرا لیتے ہیں.
بحر: عروضی ارکان کی تکرار سے اشعار کے لیے جو وزن حاصل کیا جاتا ہے اسے بحر کہتے ہیں. جیسے فاعلن ایک رکن ہے اگر اسے چار, چھ یا آٹھ دفعہ مکرر لایا جائے تو اس سے جو وزن حاصل ہو گا اسے بحر کہتے ہیں.
اگر بحر میں ایک ہی رکن کی تکرار ہو تو اسے مفرد بحر کہتے ہیں اور اگر بحر میں دو یا زیادہ ارکان ہوں تو اسے مرکب بحر کہتے ہیں . جیسے
فعولن فعولن فعولن فعولن ایک مفرد بحر ہے. کیونکہ یہ ایک ہی رکن کی تکرار سے مرکب ہے. اور
مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن مرکب بحر ہے کیونکہ اس میں مختلف ارکان استعمال ہوئے ہیں.
پھر اگر بحر میں ایک یا مختلف ارکان کی تعداد چار ہو تو اسے مربع بحر, چھ ہو تو مسدس بحر اور آٹھ ہو تو مثمن بحر کہتے ہیں. جیسے
مربع بحر:
فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن
مسدس بحر:
فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن
مثمن بحر:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
اشعار کی تقطیع کا طریقہ:
چونکہ الفاظ کی تقطیع میں مختلف صورتیں ممکن ہیں جیسے کروں کو ١ ٢ بھی باندھ سکتے ہیں اور ١ ١ بھی اسی طرح میں , نے, ہی وغیرہ کو ٢ بھی باندھ سکتے ہیں اور ١ بھی. اسی لیے کسی بھی شعر کی تقطیع میں کئی صورتیں بن جاتی ہیں. لہذا کسی بھی نظم وغیرہ کے عموما تین چار اشعار کی تقطیع کر کے ہی اس کی بحر کی تعیین ممکن ہو سکتی ہے. لیکن بسا اوقات ایک شعر کی تقطیع سے بھی اس کی بحر معلوم ہو جاتی ہے.
مبتدی حضرات کے لیے تقطیع کا طریقہ درج کیا جا رہا ہے اگر اس طریقہ سے خوب مشق کرلیں تو اتنی مہارت ہو جائے گی کہ پھر معمولی توجہ سے ہی اکثر اشعار کی بحر تک پہنچ جایا کریں گے.
١. سب سے پہلے شعر کے ہر مصرع کو الگ الگ سطر میں لکھیں اور ہر مصرع کے بعد ایک سطر خالی چھوڑیں. پھر اس شعر کے اجزا کی تعیین کریں یعنی بلند کی نیچے ٢ کا اور کوتاہ کے نیچے ١ کا نشان لگائیں. اور جہاں دوںوں احتمال ہوں وہاں بلند کا نشان لگا کر اس کے نیچے کوتاہ کا نشان بھی لگا دیں. پھر تمام اجزا کے نیچے نمبر شمار لگا دیں.
٢. پھر دونوں مصرعوں کی تقطیع میں غور کریں پہلے مصرع میں جہاں جہاں دو احتمالات ہیں اس کے مقابل دوسرے مصرع میں اسی جگہ اگر ایک ہی احتمال ہے تو دوسرا احتمال خود باطل ہو جائے گا تو اسے کاٹ دیں. پھر بھی اگر کہیں دو احتمال بچ رہیں تو پروا نہ کریں. اب آپ کو حتمی یا قلیل الاحتمالات تقطیع حاصل ہو جائے گی.
٣. پھر حاصلِ تقطیع کو الگ سے صاف صاف لکھ کر اس میں غور کر کے ارکان کی تعیین کریں. جو ارکان سامنے آئیں ان کا مجموعہ ہی اس شعر کی بحر ہے. اور اگر ارکان کی تعیین میں بھی ایک سے زیادہ احتمالات ہوں تو روایتی عروض میں تو بنیادی ارکان اور ان کی ممکنہ مزاحف صورتوں کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن جدید عروض میں اس کا الگ قاعدہ ہے جو کہ آگے چل کر زحافات کی بحث کے بعد بیان کیا جائے گا.
اب کچھ اشعار کی تقطیع کرتے ہیں.
١. کیا کروں میں گلہ یار نے کیا کیا
دل مرا چھین کر مفت ہی لے لیا
٢. ترے ہجر میں زندگی جاں گسل ہے
یہی پھول سا دل کلیجے پہ سل ہے
٣. چاہتے ہیں وہ بات ان سے کروں میں
اس لیے شاید مجھ سے برہم نہیں ہیں 

24 مارچ، 2016

تقطیع کے قواعد 3

 جدید عروض کے اسباق

چھٹا سبق

تقطیع کے قواعد (٤)

١٦. کسی بھی لفظ میں تین ساکن حروف ایک ساتھ ہوں تو تیسرے ساکن حرف کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا. جیسے دوست میں واو, سین اور تے تینوں ساکن ہیں, لہذا تے کو تقطیع میں شمار نہیں کریں گے. چنانچہ:
دوست = فاع
گوشت = فاع
ساخت = فاع

١٧. واو معدولہ: اس واو کو کہتے ہیں جو لکھی تو جاتی ہے مگر  پڑھی نہیں جاتی. یہ واو بعض فارسی الفاظ میں خے (خ) کے بعد آتی ہے اور اس کے بعد عموما الف یا یے (ی)  اور کبھی کوئی اور حرف ہوتا ہے. یہ واو لکھی تو جاتی ہے لیکن واضح طور سے پڑھی نہیں جاتی اس لیے اس واو کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا. جیسے خواب, خوار, خواہش, درخواست, خواجہ, خواندہ, خواہ مخواہ, خویش, خود, خوش, خورشید, خوردہ وغیرہ. کی واو, واو معدولہ ہے. چنانچہ:
خواب, خوار, خویش = ٢ ١
خواہش, خواجہ, خوردہ = ٢ ٢
درخواست = ٢ ٢ ١
خواندہ = ٢ ١ ٢
خواہ مخواہ = ٢ ١ ١ ٢ ١
خود, خوش = ٢
خورشید = ٢ ٢ ١

اور خوب, خود (لوہے کی ٹوپی), خول, خوشہ, خوراک, خون  وغیرہ کی خے ملفوظہ ہے لہذا تقطیع میں شمار ہو گی.

١٨. یائے مخلوطہ: اس یے (ی) کو کہتے ہیں جس کی آواز دوسرے حرف کی آواز کے ساتھ مل کر نکلتی ہے, خود واضح طور سے ادا نہیں کی جاتی اس لیے تقطیع میں بھی شمار نہیں کی جاتی. یہ یے بعض ہندی الفاظ میں آتی ہے اور اس کے بعد الف یا واو ہوتا ہے. جیسے کیا(استفہامیہ), پیاس, پیار,دھیان, سیانا, بیاہ, گیان, کیوں وغیرہ. چناںچہ:
کیا, کیوں = ٢
پیاس, پیار, دھیان, بیاہ, گیان = ٢ ١
سیا نا = ٢ ٢

١٩. جس حرف پر کھڑا زبر, کھڑی زیر ہو اس حرف کو ہجائے بلند باندھا جاتا ہے. جیسے
 اعلیٰ, ادنیٰ = ٢ ٢
زکوٰۃ = ١ ٢ ١
بعینہ = ١ ٢ ١ ٢

٢٠. واو لین: وہ واو جس سے پہلے حرف پر زبر ہو, تقطیع میں شمار کی جائے گی. واو لین پر حرف علت والا اختیاری قاعدہ لاگو نہیں ہوتا. چنانچہ ضَو, لَو, پرتَو کی واو ہمیشہ تقطیع میں شمار ہو گی.

٢١. حرف علت اگر لفظ کے درمیان میں ہو تو اسے لازما تقطیع میں شمار کیا جاتا ہے سوائے چند الفاظ کے کہ ان میں گرایا بھی جا سکتا ہے. جیسے:
اور = ٢ ١ / ٢
کوئی = ٢ ٢ / ١ ٢
دوئی = ٢ ٢ / ١ ٢
ہوئی = ٢ ٢ / ١ ٢
وغیرہ

18 مارچ، 2016

تقطیع کے قواعد

جدید عروض کے اسباق

چوتھا سبق

تقطیع کے قواعد (٢)

١٠. کثیر الاستعمال ہندی الفاظ کے آخر کے حروف علت [واو, الف, یے (و, ا ی)] کو تقطیع میں بلا کراہت گرا دینا جائز ہے. جیسے کو, ہے, تھا, ہی, سے, نے, میں, ہیں وغیرہ اصلا تو ہجائے بلند ہیں لیکن انہیں کوتاہ بھی باندھ سکتے ہیں. اسی طرح اسے, مجھے, انھیں, کہاں, جہاں وغیرہ اصلا تو فعو ہیں لیکن مَفَ بھی باندھے جا سکتے ہیں. اسی طرح کیسے, جیسے, کوئی وغیرہ اصلا تو فعلن ہیں لیکن فاع بھی باندھے جا سکتے ہیں. وغیرہ وغیرہ. 

ایسے کثیر الاستعمال الفاظ کے علاوہ دیگر ہندی الفاظ کے آخر کے حروف علت گرانا بھی جائز ہے لیکن نہ گرانا بہتر ہے. جیسے سہانا, پرانا جینا, ہونا اٹھا, بیٹھا وغیرہ.

عربی اور فارسی الفاظ کے آخر کے حروف علت کا گرانا معیوب ہے. انہیں گرانے سے احتراز کرنا چاہیے.

١١. واو عاطفہ اپنے ماقبل حرف کو متحرک کر دیتا ہے جس کی وجہ سے ماقبل حرف کی تقطیعی حالت بدل جاتی ہے. جیسے دل بروزن فع ہے لیکن دل و جگر کی ترکیب میں دِلُ, مَفَ ہو گیا.
پھر اگر واو عاطفہ کو بھی تقطیع میں شمار کیا جائے تو ماقبل حرف کے ساتھ مل کر ہجائے بلند بن جاتا ہے. جیسے دل و جگر کی ترکیب میں دلو فعو ہو گیا.
تو واو عاطفہ والے مرکب الفاظ کو دو طرح باندھ سکتے ہیں جیسے:
دل و جگر = ١ ١ ١ ٢ / ١ ٢ ١ ٢
سمع و بصر = ٢ ١ ١ ٢ / ٢ ٢ ١ ٢ 
فکر و نظر = ٢ ١ ١ ٢ / ٢ ٢ ١ ٢ 
وغیرہ وغیرہ

١٢. کسرہ اضافت کی تقطیع میں بھی یہی تفصیل ہے جو واو عاطفہ کے بارے میں بیان ہوئی. مثالیں:
دلِ ناداں = ١ ١ ٢ ٢ / ١ ٢ ٢ ٢ 
غمِ دوجہاں = ١ ١ ٢ ١ ٢ / ١ ٢ ٢ ١ ٢ 
لباسِ زہد = ١ ٢ ١ ٢ ١ / ١ ٢ ٢ ٢ ١ 

مشق
درج ذیل الفاظ  اور جملوں کی ہر دو طرح تقطیع کریں:

میں نے کہا.
تو نے گھڑی خریدی.
اسے لے گیا.
کیسے آنا ہوا.
کہاں جا رہے ہو.
مرغِ بسمل.
جانِ من.
زمین و زماں.
روح و بدن.
زبانِ حال.
  خار و گل.

جدید عروض کے اسباق

پانچواں سبق

تقطیع کے قواعد (٣)

١٣. ہائے مختفی یعنی وہ ہا (ہ) جو الفاظ کے آخر میں اپنے ماقبل حرف کی حرکت کے اظہار کے لیے لکھی جاتی ہے لیکن کھل کر پڑھی نہیں جاتی, اسے تقطیع میں شمار کرنے نہ کرنے میں اختیار ہے لیکن شمار نہ کرنا بہتر ہے. جیسے
نشانہ = ١ ٢ ١ / ١ ٢ ٢
دیوانہ = ٢ ٢ ١ / ٢ ٢ ٢
بچہ = ٢ ١ / ٢ ٢
یہ = ١ / ٢
وہ = ١ / ٢

ملحوظہ: جس لفظ کے آخر میں حرف علت یا ہائے مختفی ہو اگر اس لفظ کے بعد واو عاطفہ لائی جائے یا اس لفظ کے آخر میں کسرہ اضافت لگائی جائے تو اس واو عاطفہ اور کسرہ اضافت سے اس لفظ کی تقطیع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ واو عاطفہ اور کسرہ اضافت کی الگ سے تقطیع کی جائے گی. پھر اس میں اختیار ہے چاہے اسے بلند باندھیں یا کوتاہ. جیسے :

فردائے قیامت = ٢ ٢ ٢ ١ ٢ ٢ / ٢ ٢ ١ ١ ٢ ٢
چاقو و خنجر = ٢ ٢ ٢ ٢ ٢ / ٢ ٢ ١ ٢ ٢
زمانۂ ماضی = ١ ٢ ١ ٢ ٢ ٢ / ١ ٢ ١ ١ ٢ ٢
دیوانہ و مستانہ = ٢ ٢ ١ ٢ ٢ ٢ ٢ / ٢ ٢ ١ ١ ٢ ٢ ٢

جس لفظ کے آخر میں الف یا واو ہو اور اس لفظ کو مضاف بنایا جائے تو اس کے بعد "ئے" کا اضافہ کر دیتے ہیں جیسے فردائے قیامت, جوئے شیریں.

جس لفظ کے آخر میں ی یا ہ ہو اس لفظ کو مضاف بنایا جائے تو ی اور ہ پر ہمزہ لگا دیتے ہیں جیسے زیادتئ حاکم, نغمۂ گل.

١٤. ہائے ملفوظی یعنی وہ ہا (ہ) جو کھل کر پڑھی جائے, تقطیع میں شمار کی جائے گی. جیسے شاہ, راہ, ماہ چاہ, آہ سب ٢ ١ ہیں.

١٥. جو الف متحرک دو ساکن حروف کے درمیان آئے تو اگر چاہیں تو اس الف کی حرکت ماقبل ساکن حرف کو دے کر الف کو گرا دیں اور پھر اس متحرک کو ساکن سے ملا کر ہجائے بلند بنا دیں. اور اگر چاہیں تو ایسا نہ کریں بلکہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیں. جیسے:
گل اندام:
گل. ان. دا. م = ٢ ٢ ٢ ١ / گ. لن. دا. م = ١ ٢ ٢ ١
غبار اپنا:
غ. با. ر. اپ. نا = ١ ٢ ١ ٢ ٢ / غ. با. رپ. نا = ١ ٢ ٢ ٢

الف ممدودہ (آ) اصل میں دو الف ہوتے ہیں پہلا متحرک، دوسرا ساکن۔ اس لیے الف ممدودہ کے بعد اگر ساکن حرف نہ بھی ہو تو تب بھی اس پر درج بالا قاعدہ جاری کر سکتے ہیں۔ جیسے اک آواز:
اک۔ آ۔ وا۔ ز = ۲ ۲ ۲ ۱ / ۱ ۲ ۲ ۱
پسند آنا:
پ۔ سن۔ د۔ آ۔ نا = ۱ ۲ ۱ ۲ ۲ / ۱ ۲ ۲ ۲

12 مارچ، 2016

تقطیع کے قواعد پہلی قسط

تقطیع
•تقطیع کی تعریف: اشعار کے الفاظ کو اس طرح ارکان میں تقسیم کرنا کہ جس بحر میں وہ شعر کہا گیا ہے وہ متعین ہو جائے. یعنی تقطیع میں شعر کے اجزاء (ہجائے کوتاہ و بلند) کو الگ الگ کر کے پھر ان اجزاء کو جوڑ کر ایسے ارکان حاصل کیے جاتے ہیں جن کا وزن, تعداد اور ترتیب دونوں مصرعوں میں یکساں ہو تاکہ اس شعر کی بحر معلوم ہو جائے. جیسے ع
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
پہلے اس کے اجزاء کو الگ کیا جو کہ اس طرح ہیں:
١ ٢ ٢ ١ ٢ ٢ ١ ٢ ٢ ١ ٢ ٢ پھر ان اجزاء کی ترتیب و تعداد میں غور کیا تو معلوم ہوا کہ ١ ٢ ٢ چار دفعہ ہیں جو کہ فعولن چار دفعہ ہوا تو اس کی بحر معلوم ہو گئی جو کہ فعولن فعولن فعولن فعولن ہوئی. بحور کی اقسام و دیگر تفصیل آگے آئے گی.
•تقطیع کے قواعد:
١. تقطیع میں تغیر حرکات کا لحاظ نہیں کیا جاتا پس جب, دل اور گل, تینوں ہی پہلے حرف کی حرکت کے اختلاف کے باوجود ہم وزن ہیں.
٢. تقطیع میں ہجائے کوتاہ کے مقابل ہجائے کوتاہ اور ہجائے بلند کے مقابل ہجائے بلند رکھا جاتا ہے. جیسے زندگی = زن. د . گی = فاعلن
٣. حروف مکتوبہ غیر ملفوظہ کو تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا. جیسے ذوالفقار میں واو اور الف لکھے تو جاتے ہیں لیکن پڑھے نہیں جاتے اس لیے تقطیع میں بھی شمار نہیں کیے جائیں گے. لہذا ذوالفقار = فاعلات
٤. مشدد حرف دو دفعہ شمار کیا جاتا ہے. جیسے پتی = پت . تی = فعلن
٥. نون غنہ تقطیع میں شمار نہیں کیا جاتا.
جیسے دوجہاں = دو . ج . ہاں = فاعلن
٦. دو چشمی ہا کو بھی شمار نہیں کیا جاتا. جیسے گھر = فع
٧. لفظ نہ اور کہ کو ہمیشہ ہجائے کوتاہ شمار کیا جاتا ہے.
٨. الف ممدودہ (آ) کو ہجائے بلند باندھا جاتا ہے.
٩. جس لفظ پر تنوین ہو اسے بھی ہجائے بلند باندھا جاتا ہے. جیسے یقیناََ = فعولن
مشق
درج ذیل الفاظ کی تقطیع کریں:
دروازہ, شیرازہ, فی الحال, اللہ, مکاں, چھت, آسماں, عموما, عبدالرحمان, ابو, کراما کاتبین, فی الفور, فورا, بھی, مکھی

1 مارچ، 2016

جدید عروض کے اسباق

جدید عروض کے اسباق

دوسرا سبق

پہلے سبق میں بتایا گیا تھا کہ شعر ارکان سے اور ارکان اجزاء سے بنتے ہیں. اور اجزاء کی دو اقسام بھی بیان کی گئی تھیں. نیز بتایا گیا تھا کہ ہجائے کوتاہ کے لیے ١ کا ہندسہ اور ہجائے بلند کے لئے ٢ کا ہندسہ بطور علامت مقرر ہیں. اب آگے چلنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ بحر کسے کہتے ہیں.

بحر: عروضی ارکان کی تکرار سے اشعار کے لیے جو وزن حاصل کیا جاتا ہے اسے بحر کہتے ہیں. جیسے فاعلن ایک رکن ہے اگر اسے چار, چھ یا آٹھ دفعہ مکرر لایا جائے تو اس سے جو وزن حاصل ہو گا اسے بحر کہتے ہیں.

ارکان کی دو قسمیں ہیں:

١. کامل ارکان: وہ ارکان جن سے بحریں بنائی جاتی ہیں چاہے ایک ہی رکن کو مکرر لا کر یا چاہے دو یا تین یا چار ارکان کو ملا کر. جیسے
فعلن فعلن فعلن فعلن
یا
فعول فعلن فعول فعلن
یا
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
وغیرہ

کامل ارکان اٹھارہ ہیں.

•اٹھارہ کامل ارکان

فِعْلُنْ = ٢ ٢
فَعِلَتْ = ١ ١ ٢
فَعُوْلْ = ١ ٢ ١

فَعُوْلُنْ = ١ ٢ ٢
فَاعِلُنْ = ٢ ١ ٢
مَفْعُوْلْ = ٢ ٢ ١

مَفْعُوْلُنْ = ٢ ٢ ٢
فَاعِلاَتْ = ٢ ١ ٢ ١
فَعِلاَتْ = ١ ١ ٢ ١

فَعِلاَتُنْ = ١ ١ ٢ ٢
مَفَاعِلُنْ = ١ ٢ ١ ٢
مُفْتَعِلُنْ = ٢ ١ ١ ٢

مَفَاعِیْلُنْ = ١ ٢ ٢ ٢
مُسْتَفْعِلُنْ = ٢ ٢ ١ ٢
مَفَاعِیْلْ = ١ ٢ ٢ ١

فَاعِلاَتُنْ = ٢ ١ ٢ ٢
مُتَفَاعِلُنْ = ١ ١ ٢ ١ ٢
مُفَاعَلَتُنْ = ١ ٢ ١ ١ ٢

٢. ناقص ارکان: وہ ارکان جن سے انفرادی طور پر کوئی بحر نہیں بنائی جاتی البتہ کامل ارکان کے ساتھ مل کر بحر میں آتے ہیں. جیسے
فاعلن فاعلن فاعلن فع
یا
فاع فعولن فاع فعولن
یا
مفعول مفاعلن مفاعیل فعو
وغیرہ

• تین ناقص ارکان

فَعْ = ٢
فَاعْ = ٢ ١
فَعُوْ = ١ ٢

ہر رکن کے آگے اس کے اجزاء بھی علامات کے ساتھ لکھ دیے ہیں. خوب سمھ لیجیے کہ کون سا رکن کن اجزاء سے اور کتنی دفعہ کی تکرار سے مرکب ہے.

ان اٹھارہ + تین, اکیس ارکان کو خوب رٹ کر یاد کر لینا چاہیے. جو یہ ارکان یاد نہ کر سکے وہ یہیں بس کر لے.
اب دو تین دن انہیں دو اسباق کی مشقیں ہوں گی جو احباب مشقوں میں شریک ہونا چاہیں وہ پہلے سبق میں بیان کیے گئے اجزاء اور اس سبق میں بیان کیے گئے ارکان کو خوب یاد اور سمجھ لیں.

اطلاع

شاعری کے شائقین کے لیے اطلاعا عرض ہے کہ میں نے اپنی دیوار پر جدید عروض کے اسباق شروع کیے ہیں.

یوں تو علم العروض کافی مشکل اور گنجلک علم ہے کیونکہ روایتی عروض میں ارکان کی تعداد کم ہے اس لیے مزید ارکان کے حصول کے لیے زحافات سے کام لیا جاتا ہے اور زحافات کی بحث ایسی پیچیدہ ہے کہ بڑے بڑے عروضیوں کو بھی یاد نہیں رہتی کیونکہ ایک ہی تبدیلی جب ایک رکن میں کی جائے تو اس کا نام کچھ ہوتا ہے اور وہی تبدیلی دوسرے رکن میں کی جائے تو اس کا نام بدل جاتا ہے. اور پھر کچھ زحافات عام ہیں تو کچھ زحافات شعر کے بعض حصوں کے ساتھ خاص ہیں. اور پھر زحافات کی تعداد پر بھی اتفاق نہیں. کسی نے کم بیان کیے کسی نے زیادہ. یہاں تک کہ چالیس کے قریب زحافات بیان کیے گیے ہیں. کوئی ایک زحاف کو فارسی کے ساتھ خاص کہتا ہے تو دوسرا اسی زحاف اردو میں بھی جاری کرتا ہے. اس لئے زحافات کی وجہ سے علم العروض صعب الحصول ہو گیا ہے.

میں نے گذشتہ بارہ تیرہ سال کی تحقیق و تدقیق سے علم العروض کو جدید ترتیب دی ہے جس میں ارکان کی تعداد تو بڑھا دی ہے لیکن زحافات کی تعداد کم کر کے صرف تین زحافات کو باقی رکھا ہے. اور اس ساری تجدید سے علم العروض نہایت ہی آسان بھی ہو گیا ہے اور شاعری کی ضرورتوں کے زیادہ موافق بھی ہو گیا ہے.

اس بارہ تیرہ سال کے عرصے میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا ہے اس لئے اگر کچھ صحیح بیان کروں تو انہیں کتب کی خوشی چینی ہے اور اگر کہیں غلطی کروں تو میری سجھ کا قصور.

١. میزان سخن
٢. چراغ سخن
٣. حدائق البلاغہ
٤. عروض سب کے لیے
٥. اردو کا عروض
٦. جدید علم عروض
٧. شعر اور فن شعر
٨. فاعلات
٩. آسان عروض کے بیس اسباق
١٠. فن شعر و شاعری
١١. محیط الدائرہ
١٢. متن الکافی
١٣. الاوزان الشعریہ

امید ہے کہ عروضی حضرات تشریف لا کر اصلاح فرمائیں گے. اور عروض سیکھنے کے خواہشمند بھی استفادہ کریں گے.

وما توفیقی الا باللہ

11 نومبر، 2015

شاعری ایک تعارف (پہلی قسط)

اردو شاعری سے متعلق ابحاث پر لکھی گئی کتابوں میں الطاف حسین حالی مرحوم کی کتاب "مقدمہ شعر و شاعری" کو وہی مقام حاصل ہے جو خود شاعری کو اصنافِ ادب میں حاصل ہے۔ شاعری کا ذوق رکھنے والے احباب کے لیے اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ اس کتاب میں شاعری کی تعریف، ضرورت، مدح و ذم، شاعری کے لیے درکار استعداد، اشعار کے محاسن و قبائح اور شاعری کی بعض اصناف وغیرہ پر تفصیل سے کلام کیا گیا ہے۔ “مقدمہ شعر و شاعری” اور دیگر کتب کے مطالعہ کے دوران میں نے ان مباحث کو، جن کا جاننا کسی بھی شاعر کے لیے ضروری ہے، اپنے الفاظ میں اختصار کے ساتھ جمع کیا تھا، اسی کو “شاعری ایک تعارف” کے عنوان سے شائع کر رہا ہوں۔اللہ سبحانہ و تعالٰی غلطیوں سے بچائے اور اسے نفع مند بنائے۔ آمین۔

شاعری کی تعریف:

خیالات و جذبات،  اقدار و روایات ، مدح و ذم، حالات  و واقعات  وغیرہ  کو غیر معمولی انداز میں موزون کر کے  پیش کرنا  شاعری کہلاتا ہے۔

شاعری دو چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ۱) تخییل و محاکات  ۲)  وزن

۱۔ تخییل و محاکات:
  معلومات کے ذخیرہ سے کوئی خیال اخذ کرنا تخییل اور پھر اسے الفاظ کے دلکش اور موثر پیرایہ پیش کرنا محاکات کہلاتا ہے۔
قوت متخیلہ جس قدراعلی درجے کی ہو گی اسی قدر  شاعری بھی اعلی درجے کی ہو گی۔یہ وہ طاقت ہے جو شاعر کو وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد کرتی ہے ۔ اور ماضی و استقبال کو اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔ وہ آدم علیہ السلام اور  جنت کی سرگزشت اور حشر و نشر کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ گویا اس نے تمام  واقعات اپنی آنکھ سے دیکھے ہیں ۔ اور ہر شخص اس سے ایسا ہی متاثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک واقعی بیان سے ہونا چاہیے۔ اس میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جن اور پری، عنقا اور آب حیات جیسی چیزوں کو ایسے معقول اوصاف کے ساتھ متصف کر سکتا ہے کہ ان کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔

تخییل و محاکات کی مثال: جیسے درج ذیل معلومات سے شاعر نے ایک خیال اخذ کیا اور پھر اسے کلام کی صورت میں  پیش کیا۔معلوم نمبر۱؛ جام سفال (مٹی کا کوزہ) ایک نہایت کم قیمت چیز ہے جو بازار میں ہر وقت مل سکتا ہے۔ معلوم نمبر۲؛ جام جم (جمشید بادشاہ کا جام) ایک نہایت قیمتی اور انمول چیز ہے جو بازار میں دستیاب نہیں۔ معلوم ۳؛ جام جم کے آگے جام سفال کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب شاعر کی قوت متخیلہ نے ان تمام معلومات کو ترتیب دے کر یہ خیال پیش کیا کہ جام سفال جام جم سے بہتر ہے۔اور پھر اس خیال کو بیان کا ایک دلفریب پیرایہ دے کر اس قابل کر دیا کہ زبان اس کو پڑھ کر لذت حاصل کرتی ہے اور دل اس کو سمجھ کر متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے:

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے (غالب)

آسان  و مختصر الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ذہن میں کوئی خیال لانا تخییل ہے اور پھر اسے دلکش انداز میں پیش کرنا محاکات ہے۔

۲۔ کلام کا موزون ہونا:

جان لینا چاہئے کہ کسی کلام میں اگرچہ  کتنے ہی بلندمضامین کو خوب سے خوب تر انداز میں بیان کیا گیا ہو، لیکن اگر وہ کسی وزن و آہنگ میں نہیں ،تو اسے شاعری نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس پر نثر کا اطلاق ہو گا۔شاعری کی اصطلاح میں وزن،  دو کلموں کی حرکات و سکنات کے برابر ہونے کو کہتے ہیں۔ جیسے افضل اور اشرف ، کتاب اور شباب وغیرہ  ان مثالوں میں افضل اور اشرف ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک، دوسرا ساکن، تیسرا متحرک اورچوتھا ساکن ہے۔ اسی طرح کتاب اور شباب ہم وزن ہیں دونوں میں پہلا حرف متحرک دوسرا بھی متحرک تیسرا ساکن اور چوتھا بھی ساکن ہے۔ اوزان شعریہ پر بحث علم عروض میں کی جاتی ہے۔یہاں مختصرا چند باتیں ذکر کر دیتا  ہوں۔
جاری ہے

اردو ادب بلاگ کے مضامین کو سماجی ذرائع ابلاغ پر پھیلا کر اردو کی ترویج میں اپنا حصہ شامل کیجیئے ۔