4 مئی، 2016

زحافات

جدید عروض کے اسباق
ساتواں سبق (حصۂ اول)
جدید عروض کے زحافات
زحاف: عروضی ارکان میں جو تغیر و تبدل کیا جاتا ہے اسے زحاف کہتے ہیں. جیسے رکن فاعلن کو فاعلان, مفتعلن کو مفعولن, مفاعلن کو مفاعلاتن کر دینا.
ہر رکن زحاف لگنے سے پہلے تک سالم رکن کہلاتا ہے اور زحاف لگا کر جو صورت حاصل کی جاتی ہے اسے اس رکن کی مزاحف شکل کہتے ہیں اور اسی طرح جس بحر میں کسی رکن پر زحاف کا عمل جاری ہو اس بحر کو بھی مزاحف بحر کہتے ہیں. جیسے فاعلن سالم رکن ہے, فاعلان اس کی مزاحف شکل ہے اور فاعلن فاعلن فاعلن فاعلان مزاحف بحر ہے
روایتی عروض میں زحافات کی تعداد چالیس کے قریب ہے جبکہ جدید عروض میں گنتی کے چند زحافات ہیں.
١. زیادت: جس رکن کے آخر میں ہجائے بلند ہو اس رکن کے آخری ہجائے بلند کے درمیان ایک الف ساکن بڑھا دینا. جیسے فعْلن سے فعْلان, فعِلن سے فعِلان, فعولن سے فعولان, فاعلن سے فاعلان, مفعولن سے مفعولان, فعلاتن سے فعلاتان, مفاعلن سے مفاعلان, مفتعلن سے مفتعلان, مفاعیلن سے مفاعیلان, مستفعلن سے مستفعلان, فاعلاتن سے فاعلاتان, متفاعلن سے متفاعلان, مفاعلتن سے مفاعلتان, فع سے فاع, فعَل سے فعول.
یہ زحاف بحر کے ہر رکن پر نہیں جاری کیا جاتا بلکہ صرف عروض و ضرب اور بحر کے ہر مصرع کے درمیانی دو حشووں میں سے پہلے حشو پر لگایا جاتا ہے. لہذا مربع بحر کے صرف عروض و ضرب پر کیونکہ مربع بحر میں حشو ہوتا ہی نہیں, مسدس کے بھی صرف عروض و ضرب پر کیونکہ مسدس میں صرف ایک ہی حشو ہوتا ہے, مثمن بحر میں عروض وضرب کے علاوہ حشو اول پر بھی جاری کیا جاتا ہے. مثالیں:
مربع:
فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلان
مسدس:
فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلن فاعلان
مثمن:
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
سے
فاعلن فاعلان فاعلن فاعلان
فاعلن فاعلان فاعلن فاعلان
اس زحاف میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اگر پہلے مصرع کے کسی رکن پر لگے تو دوسرے مصرع میں بھی لگے جسے
فعولن فعولن
فعولن فعولان
یا
فعولن فعولان فعولن فعولن
فعولن فعولن فعولن فعولان
وغیرہ بھی درست ہیں

جدید عروض کے اسباق
ساتواں سبق (حصۂ دوم)
جدید عروض کے زحافات
٢. تسکینِ اوسط: بحر میں کسی بھی جگہ تین متحرک جمع ہو جائیں, چاہے ایک رکن کے ہوں یا دو ارکان کے, ان تینوں میں سے درمیانے متحرک کو ساکن کر دینا. جیسے فَعِلَاتن میں ف ع ل تینوں متحرک ایک ساتھ ہیں لہذا اگر درمیانے متحرک (ع) کو ساکن کر دیں تو فِعْلَاتن ہو جائے گا, اسی طرح
فَعِلُن سے فِعْلُن
فَعِلَات سے فِعْلَات
مُفْتَعِلُن سے مُفْتَعْلُن
مُتَفَاعلن سے مُتْفَاعلن
مفاعَلَتُن سے مفاعَلْتُن
ہو جائیں گے.
یہ تو مثالیں تھیں ایک رکن میں تین متوالی حرکات کی اب دو ارکان کے آگے پیچھے آنے سے جو تین متوالی حرکات پیدا ہو جاتی ہیں ان کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں: فاعُ فَعُولن میں ع ف ع تینوں متحرک ایک ساتھ جمع ہو رہے ہیں لہذا اگر درمیانے متحرک کو ساکن کر دیں تو فاعَفْ عُولن ہو جائے گا. اسی طرح
فعولُ فَعَلْ سے فعولُفْ عَل
مفعولُ مَفَاعیل سے مفعولُمْ فَاعیل
مفعولُ مَفَاعلن سے مفعولُمْ فَاعلن
ہو جائیں گے.
اوپر مثالوں میں آپ نے دیکھا کہ تسکین اوسط کے بعد جو اوزان حاصل ہوئے وہ کچھ غیر مانوس سے ہیں اس لیے انہیں مانوس و متعارف ہم وزن اوزان سے بدل دیا جاتا ہے لہذا:
فِعْلاتن کو مفعولن سے
فعْلات کو مفعول سے
مفتعْلن کو مفعولن سے
متْفاعلن کو مستفعلن سے
مفاعلْتن کو مفاعیلن سے
فاعف عولن کو فعلن فعلن سے
فعولف عل کو فعولن فع سے
مفعولم فاعیل کو مفعولن مفعول سے
مفعولم فاعلن کو مفعولن فاعلن سے
بدل دیتے ہیں.
یہ ایک عام زحاف ہے یعنی زیادت کی طرح درمیانے دو میں سے پہلے حشو اور عروض و ضرب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ صدر و ابتداء, عروض و ضرب اور ہر حشو میں آ سکتا ہے. جیسے بحر:
مصرع اول: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
تسکین اوسط کے بعد:
مصرع دوم: مفعول مفاعیلن مفعولن فعلن
ہو گئی.
اگرچہ دونوں مصرعوں میں کافی فرق ہے لیکن دونوں ہم وزن شمار ہوں گے.
ایک ہی شعر میں زیادت و تسکین اوسط کی مثال: ع
اک ہی کن کر دے گی ویراں
یہ چمن یہ خرابے یہ شہر یہ دشت
مصرع اول: فعْلن فعْلن فعْلن فعْلن
مصرع دوم: فعِلن فعِلن فعِلن فعِلان