17 جون، 2016

رباعی کے اوزان

جدید عروض کے اسباق
آٹھواں سبق
رباعی کی تعریف اور اوزان
رباعی کی تعریف: مخصوص اوزان میں کہے گئے ایسے چار مصرعوں کو رباعی کہا جاتا ہے جن میں کوئی ایک مضمون مکمل کیا گیا ہو. پہلے, دوسرے اور چوتھے مصرع کا مقفی ہونا ضروری ہے اور تیسرے میں اختیار ہے.
رباعی کے اوزان مخصوص ہیں ان اوزان کے علاوہ دیگر اوزان میں کہے گئے چار مصرعوں کو رباعی نہیں کہا جائے بلکہ قطعہ کہا جائے گا.
رباعی کے اوزان: رباعی کے چوبیس اوزان ہیں.جنھیں روایتی عروض میں بحر مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحر ہزج) پر مختلف زحافات لگا کر حاصل کیا جاتا ہے اور عروض کی دیگر تمام کتابوں میں یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے لیکن چونکہ جدید عروض میں وہ سارے زحافات ہیں ہی نہیں اس لیے ہم وہ آسان طریقہ اختیار کریں گے جو جدید عروض کے مطابق ہو. یعنی ایسا طریقہ جس سے جدید عروض کے زحافات ہی سے چوبیس اوزان حاصل ہو جائیں. اور یہ عروض پر نہایت تحقیقی کتاب "عروض سب کے لیے" کے مصنف جناب کمال احمد صدیقی کی ایجاد ہے.
کمال احمد صدیقی وہ محقق اور مظلوم عروضی ہیں جن کی درج ذیل تحقیقات فیس بکی عروضی ایسے انداز میں پیش کر چکے ہیں گویا کہ یہ انہیں کی تحقیقات ہوں:
١. محقق طوسی کی "معیار الاشعار" میں مذکور ہشت حرفی رکن مفاعلاتن کی بنیاد پر دائرہ طوسیہ اور اس دائرے سے مزید دو بحروں کا استخراج اور بحر مفاعلاتن کو بحر جمیل سے موسوم کرنا کمال احمد صدیقی صاحب کا ہی کارنامہ ہے.
٢. اسی طرح ابراہیم ذوق کے "دیوان ذوق" کا ایک قصیدہ جو کہ بحر مفتعلاتن مثمن میں ہے اس کو بنیاد بنا کر دائرہ ابراہیمیہ اور اس سے مزید دو بحروں کا استخراج بھی کمال احمد صدیقی کے سر ہے.
٣. رباعی کے چوبیس اوزان کی تسھیل یعنی دو بنیادی اوزان کی تعیین اور پھر انہی دو اوزان پر زحافات لگا کر چوبیس اوزان کی تخریج بھی موصوف کا کارنامہ ہے.
اللہ سارقین کو ہدایت دے. بہرحال رباعی کے دو بنیادی اوزان درج ذیل ہیں:
١. مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
٢. مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
یہ دونوں اوزان بھی اصلا ایک ہی وزن ہیں کیونکہ مفاعلن اور مفاعیل کا ایک دوسرے کی جگہ استعمال جائز ہے. لیکن سمجھنے میں آسانی کے لیے دونوں کو الگ الگ شمار کیا گیا ہے.
اب جدید عروض کے زحافات زیادت اور تسکین اوسط کو ان دو اوزان کے ہر ہر رکن پر جاری کرتے جائیں تو مزید بائیس اوزان حاصل ہو جائیں گے. ملاحظہ فرمائیں:
١-٢. مفعول مفاعلن مفاعیل فعل/فعول
٣-٤. مفعول مفاعیل مفاعیل فعل/فعول
٥-٦. مفعول مفاعلن مفاعیلن فع/فاع
٧-٨. مفعول مفاعیل مفاعیلن فع/فاع
٩-١٠. مفعول مفاعیلن مفعول فعل/فعول
١١-١٢. مفعول مفاعیلن مفعولن فع/فاع
١٣-١٤. مفعولن فاعلن مفاعیل فعل/فعول
١٥-١٦. مفعولن مفعول مفاعیل فعل/فعول
١٧-١٨. مفعولن فاعلن مفاعیلن فع/فاع
١٩-٢٠. مفعولن مفعول مفاعیلن فع/فاع
٢١-٢٢. مفعولن مفعولن مفعول فعل/فعول
٢٣-٢٤. مفعولن مفعولن مفعولن فع/فاع
رباعی کے یہی چوبیس اوزان ہیں ان چوبیس میں سے کسی بھی ایک ہی وزن پر یا دو, تین, چار مختلف اوزان پر چار مصرع اس طرح کہے جائیں کہ مضمون مکمل ہو جائے تو اس کلام کو رباعی کہا جائے گا.

2 تبصرے: